تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
جمعہ، 30 دسمبر، 2022

سوانح قاری محمد تقی الاسلام دہلوی رحمہ اللہ

دسمبر 30, 2022

 




نام کتاب:

سوانح قاری محمد تقی الاسلام دہلوی رحمہ اللہ

مؤلف:

بریگیڈیئر ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن جدون (ر)

ناشر:

جامع مسجد الفرقان ملیر کینٹ کراچی

سن اشاعت:

۲۵شعبان ۱۴۴۳ھ ؍ ۲۹مارچ ۲۰۲۲ء


       ’’الحمد لِلّٰہِ الذیٓ انزل علی عبدہ الکتاب ولم یجعل لہ عوجا والصلوۃ والسلام علٰی سید الانبیآء والمرسلین المُھدٰی الی الناس والعالمین،  مَھْبَطِ الوحی والقرآنِ العظیم،  شافع الاوّلین والاٰخرین،  مُعلِّمِ الحکمۃ والکتاب الْمُبِیْن،  وعلٰی اٰلہ واصحابہ الذین حفظوا القراٰن وجمعوہ وکتبوہ وبلّغوہ الی التابعین،  وعلی القرّاء والرُّواۃ الذین نقلوا لنا القرآن الکریم وعلی جمیع قرّاء اُمتہ وحفّاظہ وعلمائہ الذین یتلون کتابَ اللّٰہ حق تلاوتہ،  ویُقْرء ونہٗ الناس کما وصل الیھم من خاتم الانبیاء والمرسلین، وبارَک وسلَّم تسلیمًا کثیراً کثیراً۔

            اللّھم صل علی محمد بعدد من صَلّٰی علیہ وصلِّ علٰی محمد بعدد من لم یُصَلِّ علیہ،  وصل علی محمد کما امرتَ بالصلوۃ علیہ،  وصل علی محمد کما تحب أن یُصلٰی علیہ،  وَصَلّ علٰی محمد کما ینبغی أن یُصَلّٰی علیہ۔  اما بعد‘‘

اللہ کی توفیقِ خاص سے اپنے بزرگ اور بے تکلف دوست حافظ قاری محمد تقی الاسلام دہلوی ؒ ثم لاہوری کی سوانح قارئین کرام کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ وہ پاکستان کے مشہور اولین مدرسہ تجوید القرآن کوچہ کندی گراں موتی بازار رنگ محل لاہور کے اولین قابل اورمحنتی طلبہ میں سے تھے۔ انہوں نے بڑی محنت اور شوق سے وقت کے مشاھیر قراء… استاذالاساتذہ حضرت قاری فضل کریمؒ، حضرت قاری محمد شریفؒ اور امام القراء حضرت قاری عبد المالک ؒسے تعلیم حاصل کی اور پھر ساری زندگی ملک اور حرمین شریفین ، ریاض سعودی عرب میں اعلیٰ تدریسی خدمات انجام دیں اور سینکڑوں ہزاروں قراء تیار کئے جو آج ملک اور بیرون ملک ان کے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔

راقم الحروف کا تعلق بھی اسی مدرسہ کے بانی اور صدر مدرس حضرت قاری فضل کریم صاحب ؒکے شعبہ کے ایک طالب کی حیثیت سے تھا اور ہے۔ گویا ہم دونوں ایک ہی وقت میں ایک ہی ادارہ کے طالب علم رہے ہیں۔وہ مجھ سے چند سال سینئر ضرور تھے مگر ہنوز وہ بھی وہاں سبعہ کے طالب علم تھے۔ ہمارے سامنے وہ حضرت قاری محمد شریف صاحبؒ سے پڑھتے تھے اور روایتِ حفص سے فراغت کے بعد پھر وہ اسی مادرِ علمی میں معین مدرس کے طور پر پڑھانے بھی لگے تھے۔ ہماری مادرِ علمی بھی ایک اور اساتذہ بھی تقریباً ایک۔ نصف صدی سے زائد کے اس عرصہ میں ان سے یہ برادرانہ ، مخلصانہ اور دوستانہ تعلق برابر قائم رہا۔ وہ جہاں بھی رہے خط و کتابت اور ٹیلیفون سے رابطہ میں رہے۔ خود بھی برائے ملاقات تشریف لاتے رہے ۔ مئی ۱۹۷۷ء میں میں نے پاک آرمی جائن کرلی پھر وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول ایبٹ آباد بھی کئی بار تشریف لائے اور میں بھی ان سے ملک کے مختلف شہروں مانسہرہ، ایبٹ آباد، ہری پور، لاہور، حرمین شریفین اور ریاض میں ملتا رہا اور ان کے کام کو دیکھ کر مسرور ہوتا رہا۔ انہوں نے جن جن شہروں اور سعودیہ ریاض کے جن مراکز میں کام کیا نہایت محنت سے کام کیا اور ہر جگہ ان کی محنت رنگ لائی۔ واقعتہً اللہ تعالیٰ نے ان سے اپنی کتاب مقدس کی خدمت کا بڑا کام لیا ۔ ان کی زندگی اپنے ہم عصر اساتذہ، احباب کے لئے قابلِ تقلید رہی۔

انہوں نے اپنی پہلی تصنیف سوانح حضرت قاری محمد شریف کے بارے میں بھی مشورہ کیا اور مجھے ہی اس کی اشاعت کی ذمہ داری سونپی۔ میں نے اشاعت سے پہلے چند تجاویز اور اضافہ کے لئے کہا جس سے انہوں نے اتفاق کیا مگر شاید مصروفیت کی وجہ سے وہ ان تجاویز پر عمل نہیں کرسکے اور مولانا سعید الرحمن علوی صاحب کو بغیر کسی ترمیم و اضافہ کے اسی حالت میں اشاعت کا کام سپرد کردیا اور یہ کتاب منظرِ عام پر آگئی مگر مجھے اب تک محسوس ہوتا ہے کہ استاذ محترم کی جتنی بڑی شخصیت تھی یہ کتاب اس کا احاطہ نہیں کرتی۔ میں نے ان کے فرزند قاری خالد محمودصاحب سے بھی اس کا تذکرہ کیا ہے اور انہوں نے بھی اس سے اتفاق کیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اس پر کام شروع کردیا ہے اللہ کرے کہ یہ کتاب ممکن حد تک ان کے شایان شان ہو۔ وما توفیقی الا باللہ۔

انہوں نے اپنی ’’آپ بیتی‘‘ بھی میری درخواست پر لکھی تھی جو شامل اشاعت ہے۔

اہل کراچی کی یہ خوش قسمتی تھی کہ قاری تقی الاسلام صاحب اپنی زندگی کے آخری حصہ میں مشہور روحانی بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ کے ادارہ اشرف المدارس گلستان جوہر میں تشریف لے آئے اور وہاں شعبۂ تجوید کے قیام اور پھر اس کے سربراہ کی حیثیت سے یہاں کے علماء، قراء کو اس فن کی باریکیوں سے آگاہ کیا اور زندگی کے تجربات اور اپنے اساتذہ کرام سے سیکھے ہوئے گُر انہیں سکھائے اور انہین اس فن کی تدریس کا اہل بنایا۔ یہاں بھی ان سے ملاقاتیں رہیں۔ یاد پڑتا ہے کہ پہلی بار وہاں حضرت مولانا محمد مظہر صاحب کے ہاں حاضری ہوئی تو میں نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ میں ان سے بھی ملاقات کرنا چاہتا ہوں ۔ مولانا نے استفسار کیا کہ کیا آپ ان کو جانتے ہیں؟ میں نے عرض کیا کہ ہم ایک ہی ادارے تجوید القرآن لاہور کے پڑھے ہوئے اور انہی اساتذہ کے شاگرد ہیں۔میں نے انہیں مبارکباد دی کہ آپ نے بہت اچھا کیا کہ اس فیلڈ میں ان کی خدمات حاصل کرلیں۔ میرے علم کے مطابق اس وقت ان سے بہتر اُستاذ نہیں مل سکتا۔اس پر انہوں نے قاری صاحب کو بُلابھیجا مجھے وہاں دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور مجھے بھی ان سے مل کر ویسی ہی خوشی ہوئی۔ چند بار مزید ملاقاتیں ہوئیں وہی محبت وہی خلوص وہی دعا کا سلسلہ جاری رہا۔

ہر لفظ میں محبت، ہر لفظ میں دُعا

ممنون بنادیا مجھے تیرے خلوص نے

پھر اچانک ان کے وصال کی خبر ملی جس نے ہلا کر رکھ دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اس دنیا سے جانا تو سبھی نے ہے مگر ان کے جانے سے سبھی نے غم کی شدت محسوس کی کہ ایسے اللہ کے بندے اور ایسے مخلص اور ماہر اور فیض رساں اُستاذ کہاں ملتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ اس جہان میں انہیں اپنی نعمتوں سے نوازیں اور جنت الفردوس عطا فرمائیں۔

روزنامہ اسلام میں ان کے وصال پر مضمون لکھا۔ اسی وقت جی میں آیا کہ ان پر مستقل کتاب آجانی چاہئے۔ ان کے بچوں سے تعزیت اور پھر بعد میں اپنے اس ارادے کا ذکر کیا تو مواد کے سلسلہ میں انہوں نے تعاون کا یقین دلایا۔ اللہ تعالیٰ کے پیارے نام پر کام شروع کردیا الحمدللہ کہ اب یہ کتاب قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے ہم سب کے لئے نافع اور صدقہ جاریہ بنائیں۔ آمین۔

میں نے کتاب پر تقریظ لکھنے کے لئے حضرت مولانا حکیم محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم سے درخواست کی تو انہوں نے ازراہ کرم وہ تحریر ارسال فرمادی جو کتاب کے آغاز میں شامل ہے۔  فجزاہ اللہ خیراً۔

کتاب کے چھ باب ہیں ۔ باب اوّل مادرِ علمی مدرسہ تجوید القرآن اور اس کی خدمات پر ہے۔ اس میں اس کے بانی اساتذہ، مہتمم، احباب، ساتھی اور دیگر معاصرین کا اختصار اور جامعیت کے ساتھ تذکرہ ہوگا۔

باب دوم حضرت قاری صاحب کی زندگی اور کام ان کے احباب اور تلامذہ کے ان کے بارے میں اپنے اپنے مضامین میں نقوش و تاثرات پیش کئے گئے ہیں۔

باب سوم ان کے اساتذہ کرام اور شیوخ طریقت کے لئے ہے۔ باب چہارم میں ان کے ممتاز تلامذہ کا ذکر ہے ، باب پنجم ان کے لکھے گئے چند مضامین اور باب ششم ان کے چند معاصرین کے لئے ہے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یہ کتاب اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول ہو ، حضرت قاری صاحب، ان کی آل اولاد ، شاگرد ، احباب ، اساتذہ، معلمین قرآن اور معاصرین  کے لئے یاد گار ہو اور وہ اس سے سبق حاصل کرسکیں ۔ آمین!

         طالب رحمت

فیوض الرحمن

              ۲۱ شعبان ۱۴۴۳ھ ؍۲۵مارچ ۲۰۲۲ء


 
فوٹر کھولیں