تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
منگل، 7 جنوری، 2020

مشاہیر علمائے سرحد (تحقیقی مقالہ برائے پی ایچ ڈی علومِ اسلامیہ)

جنوری 07, 2020





نام کتاب:
مصنف:
بریگیڈیئر ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن جدون (ر)
ناشر:
جامع مسجد الفرقان ملیر کینٹ کراچی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، وَمَنْ تَبِعَھُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ، اَمَّا بَعْدُ!

        مشاہیر علمائے سرحد پر میں نے۱۹۷۰ء میں جو تحقیقی کام شروع کیا تھا، بفضلہ تعالیٰ ۱۹۷۷ ء میں وہ پایۂ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس موضوع پر اس سے پہلے کہیں بھی تحقیقی کام نہیں ہوا، یہ بالکل نیا موضوع ہے۔
        یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ صوبہ سرحد میں بڑے بڑے علما ء ہو گزرے ہیں، مگر ان مشاہیر کی طرف کسی نے توجہ نہیں دی،یہی وجہ ہے کہ ـآج ان کی شاندار تدریسی اور تصنیفی خدمات سے صوبہ سرحد کے رہنے والے بھی بے خبر ہیں۔ اگر اس موضوع پر اس سے پہلے کام ہو چکا ہوتا توآج مشاہیر علمائے سرحد کی علمی تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا اور جو معمولی کام ہوا بھی ہے، وہ تحقیقی طور پرانتہائی نا مکمل ہے۔ اس سلسلے میں چند تذکرے جو منظرِ عام پر آئے ہیں،ان میں علامہ حکیم عبدالحئی ا لحسنی کی’’نزھۃ الخواطرو بھجۃالمسامع والنواظر‘‘ (عربی)نہایت جامع اور قابلِ قدر تذکرہ ہے جو آٹھ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے۔اس میں پہلی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک کے علماء ہند کے تراجم موجود ہیں اور جو مصنف کی تیس سالہ محنت ِشاقہ کا نتیجہ ہے، مگر اس میں ۱۸۵۷ء کے بعد کے صوبۂ سرحد کے مشاہیر علماء کتنے ہیں؟ وہ سولہ سترہ سے زائد نہیںاور ان میں سے چند ایک کے تراجم توکسی قدر نامکمل ہیں اور بعض حضرات پر تو دودو تین تین سطریں لکھی گی ہیں۔
دوسرا تذکرہ :
        مولانا رحمان علی کا ہے جو ’’تذکرہ ٔعلمائے ہند ‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس سارے تذکرے میں سرحدی حضرات کے نام سے دو تین تذکرے بھی موجود نہیں ہیں۔
تیسراتذکرہ :
        اعجازالحق قدوسی کے قلم سے ہے جو فیروز سنز کے اہتمام سے ’’صوفیائے سرحد‘‘کے نام سے شائع ہوا ہے، مگر اس کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔ اس میں اصل تذکرہ اور تراجم صوفیاء کے ہیں،علماء کے نہیں، البتہ جو دو تین حضرات صوفی ہونے کے ساتھ ساتھ جید عالم دین بھی تھے، ان کا تذکرہ بھی موجود ہے۔
چوتھا تذکرہ:
        ڈاکٹر شیر بہادر خاں پنّی کی’’تاریخ ہزارہ‘‘میں علمائے ہزارہ پر ضمناََ کیا گیا ہے اور چند صفحات پر مشتمل ہے۔
پانچواں تذکرہ:
        امیر شاہ قادری کے قلم سے دو جلدوں میں تذکرہ’’ علماء ومشائخ سرحد‘‘ کے نام سے چھپ چکا ہے،اس کے پہلے حصے میں علماء کے تذکرے بہت کم اور مشائخ کے زیادہ ہیں اور دوسرے حصے میں ملے جلے ہیں۔ تعداد کے لحاظ سے علمائے سرحد کے جتنے تراجم اس میں ہیں کسی دوسرے میں نہیں، مگر مواد تحقیقی نہیںاور سب سے بڑی کمی اس تذکرے کی یہ ہے کہ اس میں غیر مشاہیر کو مشاہیر کی جگہ دے دی گئی ہے اور اصل مشاہیر کو نظر انداز کردیاگیاہے۔
چھٹا تذکر ہ:
         مولوی امام خاں نوشہروی کی کاوشِ فکر کا نتیجہ ہے جو ’’تراجم علمائے حدیث ہند‘‘ کے نام سے شائع ہواہے، اس میں ایک دو بزرگوں پر شاید چند سطریں مل سکیں۔
        ان تراجم اور تذکروں میں ایک بھی ایسا نہیں جسے مکمل کہا جا سکے۔ایسے میں ایک صحیح جامع اور تحقیقی تذکرہ کی ضرورت کتنی شدت سے محسوس ہوتی ہے۔
        مجھ تک علامہ شبیر احمد عثمانی کی یہ بات پہنچی ہے کہ:
        ’’ہندستانی عالم اگر ایک پیسے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں، تو اس سے ایک روپے کی شہرت حاصل کر لیتے ہیں، جبکہ ان کے مقابلے میں سرحدی عالم ایک روپے کی قابلیت رکھتے ہیں، مگر اس سے ایک پیسے کی بھی شہرت حاصل نہیں کر سکتے‘‘۔
        عالم سے میری مراد عـرفِ عام کے مطابق دینی مدارس کے فارغ التحصیل ہیں۔ مقالہ میں صرف ان مشہور علماء کا ہی تذکرہ ہے جنہوں نے تدریس و تصنیف کے میدان میں خدمات پیش کیں۔ان علماء میں علماء دیوبند، علمائے اہل حدیث اور علمائے بریلی شامل ہیں۔شیعہ مکتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے ایسے کوئی عالم نہیں مل سکے۔
        صوبۂ سرحد میں علماء کی غالب اکثریت مسلک علمائے دیوبند سے متعلق ہے، اس لئے مقالہ میں بھی سب سے زیادہ تراجم انہی حضرات کے ہیں۔ دوسرے نمبر پر علمائے اہل حدیث اور تیسرے نمبر پر علمائے بریلی ہیں۔ مسلک کے اختلاف کے باوجود میں نے کسی مشہور عالم کو نظر انداز نہیں کیا، بلکہ ان کی خدمات پر بالکل غیرجانبدارانہ کلام کیا گیا ہے۔
        ۱۸۵۷ء تا ۱۹۷۶ء …، یعنی: ۱۱۹ سال کے ۱۹۳ مشاہیر علمائے سرحد اس مقالہ میں شامل ہیں۔ اس میں کوئی بھی زندہ عالم دین شامل نہیں۔ یہ سب طبقہ مرحومین سے تعلق رکھتے ہیں، جو تاریخ وفات کے اعتبار سے مرتب کئے گئے ہیں۔ جن کی تاریخ وفات باوجود تحقیق کے نہیں مل سکی، انہیں آخر میں جگہ دی گئی ہے۔
        اس مقالہ کے تمام مشاہیر علماء کی ولادت صوبۂ سرحد میں ہوئی ہے، میں نے اسی مقام ولادت کا لحاظ رکھا ہے اور تاریخ وفات کے لحاظ سے مرتب کیا ہے، تاکہ سنین وفات محفوظ ہوجائیں۔ لٹریچر اور مواد کی تلاش میں، میں نے یکے بعد دیگرے دو سوالنامے شائع کروا کر مواد حاصل کرنے کی کوشش کی، جن کی بدولت بہت کم علماء کے سوانحی تذکرے موصول ہوئے، پھر بہت سے علاقوں میں بہت سے متعلقہ حضرات سے ملاقات کر کے مواد حاصل کیاگیا۔ ملاقات کے وقت مواد حاصل کرنے کے لئے سوالات عموماً وہی ہوتے تھے، جو سوالناموں میں آچکے ہیں۔ اس طرح بہت سے تذکرے تیار کرلئے گئے ۔
        اپنی ذاتی لائبریری کے علاوہ پاکستان کی جن اہم لائبریریوں سے استفادہ کیا گیا ہے، ان میں گورنمنٹ کالج ایبٹ آباد، مانسہرہ، ہری پور، کتب خانہ فضلیہ  شیر گڑھ(اوگی، مانسہرہ)، اسلامیہ کالج پشاور، پشاور یونیورسٹی، پنجاب یونیورسٹی، شعبۂ علوم اسلامی جامعہ پنجاب، کتب خانہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد، مجلس علمی کراچی، کتب خانہ مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیوٹاؤن کراچی، کتب خانہ جامعہ اشرفیہ لاہور اور کتب خانہ سکول آف آرمی ایجوکیشن اپرٹویہ، مری ہلز خصوصیت سے قابل ِذکر ہیں۔
        مقالہ کے سات باب ہیں۔ باب اول میں مدارس ِعربیہ کا نصاب، دوم میں محدثین، سوم میں مفسرین، چہارم میں فقہاء، پنجم میں فنون، مگر اس کے دو حصے ہیں: ’’الف‘‘ اور ’’ب‘‘۔ ’’الف‘‘ میں ان اصحاب ِفنون کے تراجم ہیں، جن کا دوسری کسی کتاب میں ذکر موجود ہے، اور ’’ب‘‘ میں ان کے جن کے تذکرے ان کے شاگردوں اور عوام کی زبانوں پر تو ہیں، مگر کسی کتاب میں نہیں اور وہ اس لیے کہ صوبۂ سرحد میں لکھنے کا دستور بہت کم رہا ہے۔ باب ششم ان مشاہیر علماء کے لیے مخصوص ہے، جنہوں نے صرف تصنیفی خدمات انجام دیں اور دینی مدرسوں میں تدریس نہیں کی، اور باب ہفتم میں ان ’’مشاہیر علمائے سرحد ‘‘ کے اسمائے گرامی ہیں، جو بلاشبہ مشاہیر تو ہیں، مگر ان پر مجھے زیادہ مواد نہیں مل سکا۔ اگر کچھ مواد ملا بھی ہے، تو بھی بہت کم۔ ان پر کچھ نہ لکھنے سے کچھ لکھنے کو بہتر خیال کرتے ہوئے ان کا تذکرہ اس امید پر کردیا ہے کہ اگر کوئی اور صاحب ان پہ کام کرنا چاہیں، تو انہیں کچھ نہ کچھ مواد مل جائے۔
        میں نے مقالہ کے خاکہ میں جس کام کو کرنے کی ذمہ داری اٹھائی تھی، وہ بحمداللہ تعالیٰ اس مقالہ کی صورت میں پوری ہوگئی ہے۔
        انتہائی ناسپاسی ہوگی کہ اگر میں اپنے قابل صد احترام اور مشفق استاذ حضرت العلامہ علاؤالدین صدیقی دامت برکاتہم کا شکریہ ادا نہ کروں، جنہوں نے اپنی علالت کے دوران میں بھی بستر ِعلالت پہ مقالہ کو پڑھا او ر رہنمائی کا حق ادا کردیا۔ میرے پاس ان کی شفقت، عنایت، ہمدردی اور ایثار کا شکریہ ادا کرنے کے لیے کوئی لفظ نہیں ہے، اسی پر اکتفاء کرتا ہوں، فجزاہ اللہ تعالیٰ احسن الجزاء فی الدنیا والآخرۃ ۔
طالب رحمت
فیوض الرحمٰن

 
فوٹر کھولیں