تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
جمعرات، 5 جنوری، 2023

تعارف قرآن

جنوری 05, 2023

            قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ دیگر الہامی کتابوں کے برعکس بعض علماء کے نزدیک اس کے ننانوے کے قریب صفاتی نام ہیں جو اس کی عظمت و فضیلت اور بلندیٔ مرتبہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ان میں سے چھ نام زیادہ مشہور ہیں:۔

۱۔                 اَلْکِتَابُ:          اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ١ۛۖۚ فِیْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَ۝   ( البقرہ: ۲)

’’یہ کتاب ( قرآن مجید ) اس میں کچھ شک نہیں (کہ کلام الٰہی ہے ۔ اللہ سے ) ڈرنے والوں کی رہنما ہے۔‘‘

۲۔       اَلْقُرْاٰنُ :                     اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ  (البقرہ: ۱۸۵)

’’رمضان کا مہینہ (ہے) جس میں قرآن (اول اول) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے۔‘‘

فائدہ:    قرآن مجید میں لفظ قرآن چھیاسٹھ مرتبہ استعمال ہوا ہے۔

۳۔       اَلذِّکْرُ:           اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَ اِنَّا لَهٗ لَحٰفِظُوْنَ ۝            (الحجر : ۹)

’’بیشک یہ ( کتاب ) نصیحت ہم ہی نے اتاری ہے اور ہم ہی اس کے نگہبان ہیں۔‘‘

۴۔       اَلْوَحْیُ:             اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ (الانبیاء: ۴۵)

’’کہہ دو کہ میں تم کو اللہ کے حکم کے مطابق نصیحت کرتا ہوں۔‘‘

۵۔       اَلْفُرْقَانُ:       اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

تَبٰرَكَ الَّذِیْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰى عَبْدِهٖ لِیَكُوْنَ لِلْعٰلَمِیْنَ نَذِیْرَا۝   (الفرقان : ۱)

’’وہ اللہ بہت ہی بابرکت ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ جہان والوں کو ہدایت کرے۔‘‘

۶۔              اَلرُّوْحُ:           اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ كَذٰلِكَ اَوْحَیْنَاۤ اِلَیْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا١ؕ     (الشوریٰ: ۵۳)

’’اور اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے تمہاری طرف روح القدس کے ذریعے قرآن بھیجا ہے۔‘‘

نزول قرآن

            قرآن مجید لوحِ محفوظ سے یک بارگی بیت العزت آسمان دنیا پر اتارا گیا ۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

بَلْ هُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌۙ۝ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ۝   (سورۃ البروج : ۲۱ ، ۲۲)

            ان دو آیتوں سے معلوم ہوا کہ قرآنِ مجید لوحِ محفوظ میں موجود تھا ۔ کس کیفیت میں تھا اس کی حقیقت اللہ تعالیٰ کے بغیر کوئی نہیں جانتا ، ہمارا کام بس یہی ہے کہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی تصدیق کریں۔

            اور یہ نزول رمضان کی شب ’’شب قدر ‘‘ میںہوا ۔ سورۂ دخان میں مبارک رات کا نام بھی دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْۤ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰى وَ الْفُرْقَانِ١ۚ (البقرہ: ۱۸۵)

’’رمضان کا مہینہ ہے جس میں قرآن (اول اول ) نازل ہوا جو لوگوں کا رہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو ) الگ الگ کرنے والا ہے۔‘‘

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةِ الْقَدْرِۚۖ۝ (القدر: ۱)

’’بیشک ہم نے اس (قرآن ) کو شب قدر میں نازل (کرنا شروع) کیا۔‘‘

اِنَّاۤ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَةٍ مُّبٰرَكَةٍ   (سورۃ الدخان : ۲)

’’بیشک ہم نے اس (قرآن ) کو مبارک رات میں نازل فرمایا۔‘‘

            ان تینوں آیتوں سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآنِ مجید یکبارگی رمضان کی مبارک رات ’’ شب قدر ‘‘ میںنازل ہوا ۔ پھر اس کے بعد رسول کریم ﷺ پر تقریباً تیئیس ۲۳ سال کے عرصہ میں تھوڑا تھوڑا اترتا رہا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ قَالَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ عَلَیْهِ الْقُرْاٰنُ جُمْلَةً وَّاحِدَةً١ۛۚ كَذٰلِكَ١ۛۚ لِنُثَبِّتَ بِهٖ فُؤَادَكَ وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝ (الفرقان : ۳۲)

’’اور کافر کہتے ہیں کہ اس پر قرآن ایک ہی دفعہ کیوں نہ اتارا گیا ، (اس طرح آہستہ آہستہ) اس لئے اتارا گیا کہ اس سے تمہارے دل کو قائم رکھیں اور اسی واسطے ہم اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھتے ہیں۔‘‘

’’ اگر غور کروگے تو اس طرح نازل کرنے میں بہت سے فوائد ہیں جو دفعتہ (یکبارگی) نازل کرنے کی صورت میں پوری طرح حاصل نہ ہوتے مثلاً اس صورت میں قرآن کا حفظ کرنا زیادہ آسان ہوا۔ سمجھنے میں سہولت رہی ، کلام پوری طرح منضبط ہوتا رہا اور جن مصالح و حِکَم کی رعایت اس میںکی گئی تھی لوگ موقع بہ موقع ان کی تفاصیل پر مطلع ہوتے رہے ، ہر آیت کی جدا گانہ شانِ نزول کو دیکھ کر اس کا صحیح مطلب متعین کرنے میں مدد ملی ، ہر ضرورت کے وقت ہر بات کا بروقت جواب ملتے رہنے سے پیغمبر اور مسلمانوں کے قلوب تسکین پاتے رہے اور ہر آیت کے نزول پر گویا دعوائے اعجاز کی تجدید ہوتی رہی ، اس سلسلہ میں جبریل کا بار بار آنا جانا ہوا جو ایک مستقل برکت تھی۔‘‘  (فوائد عثمانی)

وَ قُرْاٰنًا فَرَقْنٰهُ لِتَقْرَاَهٗ عَلَى النَّاسِ عَلٰى مُكْثٍ وَّ نَزَّلْنٰهُ تَنْزِیْلًا۝  ( بنی اسرائیل : ۱۰۶)

’’اور ہم نے قرآن کو جزو جزو کر کے نازل کیا ہے تاکہ تم لوگوں کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھ کر سناؤ اور ہم نے اس کو آہستہ آہستہ اتارا ہے۔‘‘

            انزالِ قرآن سے مقصود اصلی مطلب سمجھ کر اس پر عمل کرنا ہے جسے تدبر و تذکر کہتے ہیں لیکن اس کے نفس الفاظ و حروف بھی نور و برکت سے خالی نہیں۔

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝  (ص: ۲۹)

’’یہ ایک بڑی برکت والی کتاب ہے جو (اے نبی ﷺ ) ہم نے تمہاری طرف نازل کی ہے تاکہ یہ لوگ اس کی آیات پر غور کریں اور عقل و فکر رکھنے والے اس سے سبق لیں ۔‘‘

’’ اسی لئے سورتیں اور آیتیں جدا جدا رکھیں تاکہ وظیفہ کے طور پر تلاوت کرنا بھی سہل ہو اور سننے والوں کے لئے حفظ و فہم میں بھی آسانی رہے اور آہستہ آہستہ اس لئے اتارا کہ جیسے حالات پیش آئیں ان کے مناسب ہدایات حاصل کرتے رہیں تاکہ وہ جماعت جسے آگے چل کر دنیا کا معلم بننا تھا ہر آیت و حکم کے موقع محل کو بخوبی ذہن نشین کرکے یاد رکھ سکے اور آنے والی نسلوں کے لئے کسی آیت کے بے موقع استعمال کرنے کی گنجائش نہ چھوڑے۔‘‘               (فوائد عثمانی)

            ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سب سے پہلی وحی جو آپ ﷺ پر نازل ہوئی وہ خواب میں بصورت رؤیائے صالحہ (سچے خواب ) تھی۔ آپ ﷺ جو خواب دیکھتے وہ صبح کے روشن اجالے کی طرح سچ نکلتا تھا پھر آپ ﷺ کو تنہائی محبوب ہوگئی ، غار حرا میں جاکر آپ ﷺ تنہا کچھ دن بسر کرتے تھے اور گھر آنے سے پہلے کئی کئی شب عبادت میں مصروف رہتے تھے ۔ کھانے پینے کی چیزیں بھی ساتھ لے جاتے تھے جب وہ سامان ختم ہوجاتا تو گھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس آتے اور پھر نیا سامان لے کر غارِ حرا میں تشریف لے جاتے یہاں تک کہ غار میں ہی حق آپ ﷺکے سامنے آیا اور وہ فرشتہ آپ ﷺ کے پاس پہنچا اور اس نے کہا ’’پڑھ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں‘‘ آپ ﷺ فرماتے ہیں کہ اس فرشتہ نے مجھے پکڑ کر اتنا دبایاکہ میںتھک گیا پھر اس نے مجھے چھوڑدیا اور کہا  اِقْرَأْ ’’ پڑھ ‘‘ میں نے پھر وہی جواب دیا  (مَا اَنَا بِقَارِیٍٔ) کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں اب اس فرشتہ نے مجھ کو پکڑ لیا اور پھر دبایا یہاں تک کہ میں تھک گیا ، پھر اس نے مجھے چھوڑدیا اور کہا:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَ ۚ۝ خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍۚ۝ اِقْرَاْ وَ رَبُّكَ الْاَكْرَمُ ۙ۝ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ۝

عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ۝  (سورۃ علق: ۱۔۵)

’’ پڑھ! اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا ہے ۔جس نے پیدا کیا ہے انسان کو جمے ہوئے خون سے ۔ پڑھ اور تیرا رب بزرگ اور کریم ہے ۔جس نے قلم کے ذریعے سکھایا اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا‘‘۔

            آپ ﷺ ان آیتوں کے ساتھ گھر خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے قلب مبارک لرز رہا تھا ، فرمایا مجھے کمبل اڑھادو ، آپ ﷺ کو کمبل اڑھادیاگیا یہاں تک کہ ڈر کی وہ حالت جاتی رہی ۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے سارا واقعہ بیان کر کے فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے پھر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا ہرگزنہیں ، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا ۔ آپ ﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں ، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں ،  محتاجوں کے لئے کماتے ہیں ، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں پھر خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ ﷺ کو اپنے چچا زاد ورقہ بن نوفل بن اسد کے پاس لے گئیں ۔ ورقہ ایامِ جاہلیت میں نصرانی ہوگئے تھے اور انجیل کو حسب توفیق عبرانی میں لکھا کرتے تھے اور کافی بوڑھے ہوگئے تھے۔ ان سے خدیجہ رضی اللہ عنہا نے کہا بھائی ذرا اپنے بھتیجے کی بات سنو ، ورقہ نے کہا بتایئے ۔ اس پر آپ  ﷺ نے جو کچھ دیکھا تھا کہہ سنایا ورقہ بولے یہ وہی ناموس (محرم راز) ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے موسیٰ پر نازل کیا تھا اے کاش ! میں اس وقت جوان ہوتا ۔ اے کاش ! میں اس وقت زندہ ہوتا جب تمہاری قوم تم کو نکال دے گی ۔ آپ ﷺ نے پوچھا ’’ کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’ ہاں ‘‘ جو چیز تم لے کر آئے ہو وہ ایسی ہے کہ جو کوئی بھی اس کو لیکر آیا اس کے ساتھ دشمنی کی گئی اگر میں اس دن تک زندہ رہا تو میں تمہاری بھر پور مدد کروں گا ۔ اس واقعہ کو پیش آئے چند روز ہی ہوئے تھے کہ ورقہ کا انتقال ہوگیا۔ ‘‘(بخاری کتاب الوحی)

پہلی اور آخری وحی

پہلی وحی تو سورۂ علق کی یہی ابتدائی پانچ آیات تھیں اور آخری وحی

وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللّٰهِ١۫ۗ ثُمَّ تُوَفّٰى كُلُّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ۠۝                          (البقرہ : ۲۸۱)

ہے۔ 

’’ اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤگے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا۔‘‘

            اس وحی کے بعد آپ ﷺ کل نو دن دنیا میں رہنے کے بعد وصال فرماگئے۔

مکی اور مدنی سورتیں:

            نبوت کے بعد تیرہ سال تک آپ ﷺ کا قیام مکہ مکرمہ میں رہا ۔

             آپ ﷺ کے مکی دور میں ہجرت سے پہلے جو سورتیں نازل ہوئیں وہ مکی اور جو ہجرت کے بعد مدنی دور میں نازل ہوئیںوہ مدنی ہیں ۔ قرآن مجید کی کل ۱۱۴ سورتیں ہیں ۔ مکی سورتوں کی تعداد ۸۶ اور مدنی کی ۲۸ ہے۔

            آپ ﷺ پر جو آیت اور سورت اترتی آپ  ﷺ وحی لکھنے والے صحابہ رضی اللہ عنہم سے لکھوالیا کرتے تھے اور ساتھ ہی ان کا مقام اور جگہ کا تعین بھی فرمادیا کرتے تھے۔ قرآنی آیات اور سورتوں کی موجودہ ترتیب توقیفی یعنی آپ ﷺ کی بتائی ہوئی ہے۔

فائدہ:     سورت ۔ سور سے مشتق ہے ، سور شہر کی فصیل اور دیوار کو کہتے ہیں ۔ جس طرح فصیل سے شہر زمین کے دوسرے حصوں سے علیٰحدہوجاتا ہے اسی طرح سورت بھی قرآن کے ایک حصے کو دوسرے حصے سے علیٰحدہ کرتی ہے ۔

            اصطلاحِ شرع میں سورت سے مراد قرآن کا وہ حصہ ہے جس کا باقاعدہ آغاز اور نقطۂ آخر ہے اور بذریعہ وحی ممتاز اور علیٰحدہ کردیاگیا ہے۔

منزلیں:

            قرآن پاک کی سات منزلیں ہیں ۔ سورہ فاتحہ سے پہلی ، مائدہ سے دوسری ، یونسسے تیسری ، بنی اسرائیل سے چوتھی ، شعراء سے پانچویں، والصّٰفّٰتسے چھٹی اور ق و القرآن المجید سے ساتویں شروع ہوتی ہے اور ان کا مجموعہ ’’ فَمِیْ بِشَوْقٍ ‘‘ ہے۔ قرآن پاک کے حاشیہ میں جہاں سے منزل شروع ہوتی ہے وہاں باقاعدہ  ’’ منزل ‘‘ لکھا جاتا ہے۔

            قرآن مجید میں حاشیئے پر ’’ع ‘‘ کا نشان بھی ہوتا ہے اور اس ’’ ع ‘‘ کے اوپر ، درمیان میں اور نیچے ہندسے لکھے ہوتے ہیں۔ ’’ع ‘‘ رکوع کی علامت ہے ’’ع ‘‘ کے اوپر ہندسے کوسورت کے رکوع کا نمبر ، نیچے کے ہندسے کو پارے کے رکوع کا نمبر اور درمیان کے ہندسوں کو رکوع کی آیات کی تعداد سمجھا جائے۔

فائدہ:   آیت کے معنی علامت کے ہیں اور اصطلاح میں سورت کا وہ جملہ جو دوسرے کلام سے جدا ہو۔

            رکوع کے لغوی معنی جھکنے کے ہیں اور اصطلاح میں پارے کے حصوں میں سے ایک حصہ۔

            قرآن مجید میں ۵۵۸ رکوع اور ۶۲۳۶ آیات ہیں۔

            اسی طرح قرآنِ مجید میں حاشیئے پر ’’ السجدہ ‘‘ لکھا ہوتا ہے ۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک یہ تعداد میں چودہ جب کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک پندرہ ہیں ۔ ان آیات سجدہ کو پڑھنے اور سننے سے سجدہ کرنا لازم ہوجاتا ہے ۔ کھڑے ہوکر اَللّٰہُ اَکْبَرُ کہتے ہوئے سجدے میں جا کر تین مرتبہ  سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی  پڑھ کر اٹھ جائیں بس سجدہ ادا ہوگیا۔اگر کسی نے بیٹھے بیٹھے سجدہ کر لیا تو بھی ادا ہوگیا۔

تدوین قرآن

            رسول پاک ﷺ سے بے شمار صحابہ رضی اللہ عنہم نے قرآن پاک حفظ کیا اور کاتبینِ نبی ﷺ نے اسے اپنے پاس لکھ کر محفوظ کر لیا ۔ جب آپ ﷺ کا وصال ہوا تو اس وقت مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم کے پاس پورا قرآن لکھا ہوا موجود تھا مگر یکجا نہ تھا۔

            حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت ۱۲ ھ  میں جنگ یمامہ میں جب بہت سے نامی گرامی حفاظ و قراء نے جام شہادت نوش کیا تو اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو فکر لاحق ہوئی کہ اس طرح کہیں قرآن ضائع نہ ہوجائے ۔ اس کا تذکرہ انہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کیا ۔ بحث و تمحیص کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس کام کے لئے مشہور حافظ ، قاری اور کاتب وحی حضرت زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کو منتخب کیا ، انہوں نے مختلف صحابہ رضی اللہ عنہم سے ان اجزاء کو اکٹھا کر کے ایک مصحف میں جمع کردیا ۔ قرآن کا یہ سرکاری نسخہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس رہا پھر ان کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے پاس رہا۔

            حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں فتوحات اسلامیہ کی وجہ سے اسلام دور دور تک پھیل گیا ، تو  ۲۵ ھ میں حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے فتح ارمینیہ اور آذربائیجان کے دوران قراء ت کا اختلاف محسوس کیا تو واپس آکر رپورٹ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے سرکردہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جمع کر کے مشورہ کیا جس میں طے پایا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے سرکاری نسخہ کی مزید نقول زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن الحارث بن ہشام رضی اللہ عنہ پر مشتمل کمیٹی سے تیار کرواکر مختلف شہروں میں بھجوادی جائیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس غرض کے لئے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہما سے وہ نسخہ منگوا کر اس کمیٹی کے حوالے کیا اور اسے ہدایت کی کہ اگر کسی لفظ کی تحریر میں تمہارے اور زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی اختلاف پیدا ہو تو اسے قریش کی زبان میں ہی لکھیں کہ قرآن انہی کی زبان میں ہی نازل ہوا ہے۔ تَابُوْتْ کے کلمہ کے علاوہ اور کسی بات میں ان کا اختلاف نہیں ہوا۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ یہ  اَلتَّابُوْہْ  لکھا جائے جب کہ تینوں قریشی حضرات کا کہنا تھا کہ لمبی ’’ت ‘‘ سے لکھا جائے جب یہ معاملہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تک پہنچا تو انہوں نے بھی لمبی ’’ت ‘‘ کے ساتھ لکھنے کا حکم دیا۔ جب یہ کام مکمل ہوگیا تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جو نسخہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے منگوایا تھا انہیں حسب وعدہ واپس کردیا اور اسلامی حکومت میں اس تازہ نسخہ کی نقول درج ذیل شہروں کو بھجوادی گئیں:۔

(۱)  مکہ مکرمہ       (۲)  بصرہ           (۳)  کوفہ           (۴)  شام            (۵)   مدینہ منورہ     

(۶)حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ایک نسخہ اپنے پاس رکھا۔           (۷)  بحرین           (۸) یمن ۔اور باقی نسخوں کو تلف کرنے کا حکم دیدیا۔

            حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں قرآن کے منتشر اجزاء کو ضائع ہونے سے بچانے کی خاطر یکجا کرایا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اسی قرآن کی نقول تیار کر کے لوگوں کو ایک قرآن پر جمع کیا۔

فضائلِ قرآن

             قرآن مجید نہایت فضیلت والی کتاب ہے ، اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اس کو شفاء ، رحمت، ہدایت ، تبیان ، نور ، نورِ مبین، کتابِ عزیز ، فرقان ، قرآنِ عظیم اور قرآنِ مجید ایسے عظیم الشان ناموں سے تعبیر کیا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ان سب ناموں سے اس کی عظمت و فضیلت کا اظہار ہوتا ہے۔

            قرآن مجید کی بنیادی صفت یہ ہے کہ وہ شک سے پاک اور ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَیْبَ١ۛۖۚ فِیْهِ١ۛۚ هُدًى لِّلْمُتَّقِیْنَۙ۝۲   (البقرۃ: ۲)

’’ یہ ایسی کتاب ہے کہ اس میں شک کی گنجائش نہیں ۔ پرہیزگاروں کے لئے یہ ذریعۂ ہدایت ہے‘‘۔

            اس سے بڑھ کر اس کی کیا فضیلت ہو سکتی ہے کہ اللہ نے اس کو موعظت ، شفا، ہدایت ، خیر ، رحمت اور اپنا فضل قرار دیا ہے۔  ارشاد ہے:

یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ قَدْ جَآءَتْكُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ١ۙ۬ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ۝قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْا١ؕ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ۝(یونس: ۵۷۔۵۸)

’’ لوگو! تمہارے رب کی طرف سے نصیحت اور ان (بیماریوں ) کی جو سینوں میں چھپی ہوئی ہیں، شفا آچکی ہے اور ایمان والوں کے لئے وہ ہدایت اور رحمت ہے ۔ اے نبی ﷺ کہدیجئے کہ یہ (قرآن ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کی وجہ سے ہے پس اس سے انہیں خوش ہونا چاہئے وہ اس (مال ) سے بہتر ہے جو وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔

            اس کے بے شمار فضائل میں سے ایک فضیلت یہ ہے کہ یہ تمام جہانوں کے لئے ذکر اور نصیحت ہے:

اِنْ هُوَ اِلَّا ذِكْرٌ لِّلْعٰلَمِیْنَ۝ (ص: ۸۷)

’’یہ قرآن آپ ﷺ اور آپ ﷺ کی امت کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے‘‘۔

وَ اِنَّهٗ لَذِكْرٌ لَّكَ وَ لِقَوْمِكَ١ۚ وَ سَوْفَ تُسْـَٔلُوْنَ    (الزخرف: ۴۴)

’’ یقینا یہ (قرآن) آپ ﷺ کے لئے اور آپ ﷺ کی قوم کے لئے بڑے شرف کی چیز ہے اور عنقریب تم سے اس کے بارے میں سوال کیاجائے گا‘‘۔

            قرآن مجید کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے ، سراسر حق ہے ، لوگوں کو حق کی دعوت دیتا ہے اور اس کی تمام باتیں حق و صداقت پر مبنی ہیں ۔ ارشاد ہے:

اِنَّاۤ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّیْنَؕ۝ (الزمر: ۲)’’

اے رسول اکرم ! ﷺ) بیشک ہم نے آپ کی طرف حق کے ساتھ کتاب (قرآن) نازل کی ، سو آپ اللہ کی عبادت ، خالص اسی کی اطاعت کرتے ہوئے کریں‘‘۔

            قرآن مجید کی حفاظت کی تمام تر ذمہ داری بھی اللہ نے خود اپنے اوپر لی ہے۔ فرمایا:

اِنَّ عَلَیْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۝ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۝  ثُمَّ اِنَّ عَلَیْنَا بَیَانَهٗؕ۝   (القیٰمۃ : ۱۷۔۱۹)

’’ بلاشبہ اس کے جمع کرنے اور پڑھانے کے ذمہ دار ہم خود ہی ہیں سو جب ہم اس کو (جبریل کے ذریعے) پڑھیں تو اس کے بعد آپ بھی قراء ت کریں۔ پھر اس کی وضاحت کرنا اور سمجھانا بھی ہمارا ذمہ ہے ۔‘‘

            فضائلِ قرآن میں سے ایک بڑی فضیلت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے معانی و مطالب کے اعتبار سے نہایت آسان ہے اور الفاظ و انداز کے لحاظ سے بھی اس میں بڑی آسانی پائی جاتی ہے۔ اس کے سمجھنے اور یاد کرنے میں کوئی دقت حائل نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کروڑوں کی تعداد میں اس کے حافظ اور بے شمار اس کے مطالب بیان کرنے والے موجود ہیں اور یہ چیز اس کے عظیم فضل و کمال پر دلالت کرتی ہے۔

وَ لَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرٍ۝ (القمر: ۱۷، ۲۲ ، ۳۲ ، ۴۰(

’’ ہم نے قرآن کو آسان کردیا ہے ۔ کیا کوئی نصیحت حاصل کرنے والا ہے‘‘۔

            قرآن کی فضیلت کا اظہار اس حقیقت سے بھی ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کو ایسی فکری اور عملی راہ پر گامزن کرتا ہے جو ہر اعتبار سے سیدہی اور استوار ہے۔

اِنَّ هٰذَا الْقُرْاٰنَ یَهْدِیْ لِلَّتِیْ هِیَ اَقْوَمُ وَ یُبَشِّرُ الْمُؤْمِنِیْنَ الَّذِیْنَ  یَعْمَلُوْنَ الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَهُمْ اَجْرًا كَبِیْرًاۙ۝ (بنی اسرائیل: ۹(

’’ بلاشبہ یہ قرآن اس راہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے جو سب سے زیادہ سیدھی راہ ہے اور ایمان والوں کو جو نیک عمل کرتے رہتے ہیں ، بشارت دیتا ہے کہ انہیں بڑا اجر ملنے والا ہے۔‘‘

            تین امور میں مشغول رہنا قرآن کی رُو سے سب سے بڑی عبادت ہے ۔ ایک تلاوت قرآن دوسرے اقامتِ صلوٰۃ اور تیسرے انفاق۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً یَّرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَۙ۝

)الفاطر: ۲۹(

’’ جو لوگ کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے اس میں کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں یقینا وہ ایک ایسی تجارت کے متوقع ہیں جس میں ہرگز خسارہ نہ ہوگا‘‘۔

رسولِ کریم ﷺ کا ارشاد ہے:

خَیْرُکُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَ عَلَّمَہٗ (بخاری(

’’ تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو خود قرآن کی تعلیم حاصل کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے‘‘۔

آپ  ﷺ نے فرمایا:

اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْاٰنِ مَعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ، وَالَّذِیْ یَقْرَئُ  الْقُرْاٰنَ وَ یَتَتَعْتَعُ فِیْہِ وَ ھُوَ عَلَیْہِ شَاقٌّ لَہٗ اَجْرَانِ            (البخاری(

’’ قرآن میں مہارت رکھنے والا ، مرتبے کے اعتبار سے ان فرشتوں کے ساتھ ہے جو لکھنے والے نیکو کار ہیں اور جو شخص قرآن کی تلاوت کرنے میں اٹکتا ہے اور اس میں دقت محسوس کرتا ہے اس کے لئے دو اجر ہیں۔‘‘

            قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے والے ہی دینی و دنیوی رفعت حاصل کرتے ہیں۔ارشاد ہے:

                        اِنَّ اللّٰہَ یَرْفَعُ  بِھٰذَا الْکِتَابِ اَقْوَاماً وَّ یَضَعُ بِہٖ اٰخَرِینَ      (مسلم(

’’ اللہ تعالیٰ قرآن کی وجہ سے کتنے ہی لوگوں کو مقام بلند عطا کرتا ہے اور کتنے ہی لوگوں کو پستی و ذلت میں مبتلا کردیتا ہے‘‘۔

            قرآن مجید کے ایک ایک حرف پڑھنے پر انسان دس نیکیوں کا مستحق ہوتا ہے ۔ آپ  ﷺ کا ارشاد ہے:

مَنْ قَرَأَ حَرْفاً مِّنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَّ الْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا لَا اَقُوْلُ الٓمٓ حَرْفٌ ،

اَلِفٌ حَرْفٌ وَّ لَامٌ حَرْفٌ وَّ مِیْمٌ حَرْفٌ۔ )الترمذی(

’’ جو شخص اللہ کی کتاب سے ایک حرف بھی پڑھتا ہے ، اسے اس کے بدلے ایک نیکی ملتی ہے ، اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر قرار پاتی ہے۔ میںیہ نہیں کہتا کہ الم ایک حرف ہے بلکہ الگ الگ الف ایک حرف ہے ، لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے‘‘۔

            قرآن مجید سے صرف اس کا پڑھنے والا ہی فیض یاب نہیں ہوتا بلکہ قیامت کے روز اس کے والدین کو بھی نور کا ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی روشنی سے بھی زیادہ ہوگی۔

مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ وَ عَمِلَ بِمَا فِیْہِ اُلْبِسَ وَالِدَاہُ تَاجاً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ ، ضَوْئُ ہٗ اَحْسَنُ مِنْ ضَوْئِ الشَّمْسِ فِیْ بُیُوْتِ الدُّنْیَا لَوْکَانَتْ فِیْکُمْ فَمَاظَنُّکُمْ بِالَّذِیْ عَمِلَ بِھٰذَا۔ )مسند احمد ، ابو داؤد(

’’ جو شخص قرآن پڑھے اور اس کے احکام پر عمل پیرا بھی ہو تو قیامت کے دن اس کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی آفتاب کی اس روشنی سے بھی زیادہ ہوگی جو کہ اس دنیا میں تمہارے گھروں میں پہنچ رہی ہے۔ اب تم خود ہی بتاؤ کہ جو شخص خود اس قرآن پر عمل کر رہا ہو اس کی حالت کس درجہ بلند اور بہتر ہوگی ‘‘۔

 حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

٭        ’’ جس شخص نے قرآن پڑھا پھر اس کو یاد کیا اس کی حلال ٹھہرائی ہوئی چیزوں کو اپنے لئے حلال ٹھہرایا ، اور جن چیزوں کو اس نے حرام قرار دیا ہے ان کو حرام گردانا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا ، جن پر دوزخ واجب ہوچکا ہوگا‘‘۔     (مسند احمد ، ترمذی ، ابن ماجہ(

٭          جس شخص کے قلب میں قرآن کاکوئی حصہ بھی موجود نہیں وہ ویران گھر کی طرح ہے۔          (مشکوٰۃ(

٭          میری امت کا شرف و افتخار قرآن ہے۔(حلیہ(

٭         قرآن پڑھنے والے اور اس پر عمل پیرا اللہ کے خاص لوگ ہیں۔ )نسائی ، ابن ماجہ(

٭          تلاوت کو اپنے اوپر لازم کرلو یہ تمہارے لئے دنیا میں نور اورآخرت میں ذخیرہ ہے۔)ابن حبان(

٭          قرآن کریم پڑھنے سے گھروں میں سکینت نازل ہوتی ہے ، رحمت الٰہی ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ اپنے پاس والوں پر ان کا تذکرکرتا ہے۔)ابو داؤد(

٭          قرآن کریم باعث رشک ہے۔)بخاری(

٭          قرآن پڑھا کرو کہ یہ قیامت کے دن اپنے تلاوت کرنے والے کی شفارش کرے گا۔)مسلم(

ایک حدیث میں ہے:

مَنْ قَرَأَ الْقُرْاٰنَ وَحَفِظَہٗ اَدْخَلَہُ اللّٰہُ الْجَنَّۃَ۔  (ابن ماجہ(

’’ جس شخص نے قرآن پڑھا اور اس کو حفظ کیا اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کریں گے‘‘۔

            ایک اور حدیث میں ہے کہ صاحب قرآن سے (قیامت کے دن ) کہا جائے گا:

اِقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ کَمَا کُنْتَ تُرَتِّلُ فِی الدُّنْیَِا فِاِنَّ  مَنْزِلَکَ عِنْدَ اٰخِرِ اٰیَۃٍ تَقْرَأُھَا۔(ترمذی،ابوداؤد، نسائی)

’’ قرآن پڑھتا جا اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا اور ٹھہر ٹھہر کر پڑھ جیسا کہ دنیا میں ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتا تھا ، پس تیرا مقام وہی ہے جہاں آخری آیت پڑھتے ہوئے پہنچے‘‘۔

            قرآن میں مشغولیت کے سبب اگر کسی کو ذکر اللہ اور دعائیں مانگنے کا بھی موقع نہ ملے تو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو مانگنے والوں کی نسبت زیادہ عطا کرتے ہیں۔

            حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

            ’’ کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے کہ جس شخص کو قرآن مجید پڑھنے پڑھانے کی مشغولیت کی وجہ سے میرا ذکر کرنے اور دعا مانگنے کی فرصت نہیں ملتی میں اسے سب مانگنے والوں سے زیادہ عطا کرتا ہوں ، اور اللہ تعالیٰ کے کلام (قرآن مجید) کو سب کلاموں پر ایسی ہی فضیلت ہے جیسی خود اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوق پر ‘‘۔

آدابِ تلاوتِ قرآن

۱۔         تلاوت سے پہلے وضو کرلینا چاہئے اس لئے کہ بغیر وضو کے قرآن مجید کو ہاتھ لگانا درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

اِنَّهٗ لَقُرْاٰنٌ كَرِیْمٌۙ۝ فِیْ كِتٰبٍ مَّكْنُوْنٍۙ۝ لَّا یَمَسُّهٗۤ اِلَّا الْمُطَهَّرُوْنَؕ۝ تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۝ (الواقعہ: ۷۷۔۸۰)

’’ یہ ایک مکرم قرآن ہے ، جو ایک محفوظ کتاب میں درج ہے ، اس کو پاک لوگ ہی ہاتھ لگاتے ہیں ، یہ پروردگارِ عالم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے‘‘۔

۲          تَعَوُّذْ/ اَعُوْذُ پڑھنا۔ تلاوت سے پہلے تَعَوُّذْ/ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۝( النحل: ۹۸)

’’ جب قرآن پڑھنا شروع کرو تو اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پڑھو‘‘۔

            اگر کسی مجبوری سے بات کرنی پڑے تو قرآن پاک کو بند کرکے کی جائے اور اس کے بعد دوبارہ تلاوت شروع کرنے سے پہلے بھی  اَعُوْذُ بِاللّٰہِ پڑھنی چاہئے۔

۳          تَعَوُّذْ کے بعد بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ پڑھنا چاہئے کیونکہ سورۃ العلق میں قرآن مجید کو اللہ کے نام سے شروع کرنے کا حکم دیا گیا ہے:

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِیْ خَلَقَۚ۝ (العلق : ۱)

’’ پڑھئے اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا‘‘۔

            ہر کام شروع کرنے سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا حکم حدیث میں بھی آیا ہے۔

۴          تَرْتِیْل۔  قرآن مجید کو آہستہ آہستہ ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا چاہئے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ۝      (المزمل : ۴)

’’ اور قرآن کو آہستہ آہستہ ترتیل سے پڑھئے‘‘۔

            حضور ﷺ کی قراء ت ایسی ہوتی تھی کہ آپ ﷺ کا ایک ایک لفظ واضح اور جدا ہوتا تھا۔(ترمذی)

۵          تلاوت کرتے وقت مؤدب ہوکر بیٹھنا چاہئے ، باوضو ہونا چاہئے ، مسواک کرنی چاہئے ، دل لگاکر تلاوت کرنی چاہئے، قبلہ رخ ہوکر اور اپنے آپ پر خشوع و خضوع کی کیفیت طاری کر کے پڑھنا چاہئے۔

۶          اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ١ؕ  (النساء : ۸۲)

            ’’ کیا وہ قرآن میں غور و فکر (تدبر ) نہیں کرتے۔

یہ بھی فرمایا:

كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ اِلَیْكَ مُبٰرَكٌ لِّیَدَّبَّرُوْۤا اٰیٰتِهٖ وَ لِیَتَذَكَّرَ اُولُوا الْاَلْبَابِ۝ (ص : ۲۹)

’’ یہ با برکت کتاب ہے جس کو ہم نے آپ ﷺ پر اس لئے نازل کیا ہے تاکہ لوگ اس کی آیات میں غور کریں اور اہل فہم نصیحت حاصل کریں‘‘۔

۷          قرآن مجید کی تلاوت نہایت غور و فکر اور توجہ سے کی جائے اس میں نہ کسی طرف دھیان کیا جائے نہ بات کی جائے ، سننے والے کان لگاکر سنیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ۝ (الاعراف :۲۰۴)

’’ جب قرآن پڑھا جائے تو اس طرف کان لگادیا کرو اور خاموش رہاکرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے‘‘۔

۸          نماز میں قرآن مجید اسی ترتیب سے پڑھا جائے جس ترتیب سے اب موجود ہے۔

۹          قرآن مجید کو اچھی آواز کے ساتھ عمدگی سے پڑھنا چاہئے ۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ، آپ  ﷺ فرماتے تھے :

’’ اللہ کو اپنے نبی ﷺ کی زبان سے جس قدر حسن صوت اور عمدہ آواز سے قرآن مجید سننا پسند ہے اور کوئی چیز اتنی پسند نہیں‘‘۔       (مشکوٰۃ)

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کا یہ فرمان مروی ہے:

                                                                 زَیِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ۔ (نسائی ، ابوداؤد)

’’ قرآن کو اپنی آواز کی عمدگی سے مزین کرو‘‘۔

آپ  ﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے:

مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ فَلَیْسَ مِنَّا۔(ابوداؤد)

’’ جو شخص قرآن کی تلاوت عمدہ آواز سے نہیں کرتا وہ ہم سے نہیں ہے‘‘۔

۱۰         جو شخص تلاوت کر رہاہو باہر سے آنے والا اس کو سلام نہ کہے تاکہ اس کی توجہ تلاوت سے نہ ہٹے اور اگر کہہ بھی دے تو قاری کو جواب دینے کی ضرورت نہیں۔

۱۱          بھول کی صورت میں یہ نہ کہے کہ میں بھول گیا ہوں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ مجھے کچھ بُھلادیاگیا ہے۔ مطلب یہ کہ نسیان کا ذریعہ شیطان کو قرار دے۔

۱۲         قرآن مجید ختم کرتے وقت  وَالنَّاسِ  کے بعد دوبارہ  الٓمّٓ سے شروع کر کے  اَلْمُفْلِحُوْنتک پڑھنا چاہئے اور اس موقع پر نہایت عاجزی سے دعا کرنی چاہئے۔

۱۳         جس نے قرآن مجید یاد کیا ہو یا پڑھا ہو اس کے لئے اس کی حفاظت کرنا اور یاد رکھنا نہایت ضروری ہے کیوں کہ قرآن مجید کو اگر باقاعدہ پڑھا نہ جائے اور اس کی طرف سے توجہ ہٹالی جائے تو یہ انسان کو یاد نہیں رہتا ، اس کو بھول جانے والا اللہ کے نزدیک سخت گنہگار ہے۔

۱۴         تلاوت ختم کرتے وقت  صَدَقَ اللّٰہُ الْعَظِیْمُ کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرمایا۔

۱۵         تلاوت کرنے کے معنی اتباع اور عمل کرنے کے لئے پڑھنے کے ہیں اور قراء ت کے معنی پڑھنے کے ہیں ۔ اس حقیقت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ تلاوت کے ساتھ ساتھ عمل بھی جاری رہے۔

۱۶         قرآن مجید کی تلاوت کے دوران دعاؤں والی آیات میں اپنے اوپر وہی کیفیت طاری کر کے پڑھنا چاہئے جس کا دعا تقاضا کرتی ہے۔

۱۷        جب تک تلاوت میں دل لگا رہے تلاوت جاری رکھنی چاہئے اور جب یہ کیفیت نہ رہے تو موقوف کردینی چاہئے۔

۱۸         تین راتوں سے کم مدت میں قرآن مجید ختم کرنے کو رسول پاک ﷺ نے پسند نہیںکیا آپ ﷺ کا فرمان حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:

’’ جس نے تین راتوں سے کم میں قرآن ختم کیا اس نے قرآن کو نہیں سمجھا‘‘۔

۱۹         کثرت کے ساتھ ہمیشہ تلاوت کرتے رہنا چاہئے۔ارشاد ربانی ہے:

یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰہِ اٰنَآئَ الَّیْلِ وَھُمْ یَسْجُدُوْنَ۝        (آلِ عمران : ۱۱۳)

’’ وہ رات کے وقت تلاوت کرتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں‘‘۔

فجر کے وقت تلاوت کی فضیلت میں ارشاد ربانی ہے:

اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُوْدًا۝ (بنی اسرائیل : ۷۸)

’’ بے شک صبح کی تلاوت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں‘‘۔

۲۰        جن کی آواز اچھی ہو اور تجوید کے اصولوں کے مطابق پڑھتے ہوں ان سے وقتاً فوقتاً تلاوت سنتے رہنا چاہئے۔

            حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے رسول پاک ﷺ نے قرآن پاک سنانے کی فرمائش کی تھی اِقْرَأْ عَلَیَّ الْقُرْاٰنَ میرے سامنے قرآن مجید پڑھو۔ انہوں نے عرض کی کہ آپ ﷺ کے سامنے کیسے پڑھوں جب کہ آپ ﷺ پر قرآن نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ میرا دل چاہتا ہے کہ دوسروں سے قرآن سنوں‘‘۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے سورۃ النساء پڑھی یہاں تک کہ جب اس آیت فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّۃٍ ۢبِشَھِیْدٍ  پر پہنچا تو آپ ﷺ نے فرمایا رک جاؤ تو میںنے دیکھا کہ آپ ﷺ کی دونوں آنکھوں سے آنسو رواں تھے‘‘۔ (بخاری)

ایک دفعہ حضرت اُسَید رضی اللہ عنہ نماز تہجد میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کر رہے تھے کہ اچانک ان کا گھوڑا جو قریب بندھا ہوا تھا بدکنے لگا ۔ نماز سے فارغ ہوئے تو سر اوپر اٹھا کر دیکھا تو ایک سائبان نظر آرہا تھا جس میں بہت سی شمعیں روشن تھیں ۔ آنحضرت ﷺ سے عرض کی تو فرمایا:

                        تِلْكَ الْمَلٰئِکَۃُ دَنَتْ بِصَوْتِكَ  یہ فرشتے تھے جو تمہاری تلاوت کی آواز سننے کے لئے قریب آگئے تھے اگر تم تلاوت برابر جاری رکھتے تو عجیب و غریب مناظر دیکھتے اور لوگ اپنی آنکھوں سے فرشتوں کو انسانی شکل میں دیکھتے۔         (بخاری)

حضرت سالم رضی اللہ عنہ ایسی خوش الحانی سے تلاوت کیا کرتے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تلاوت سننے کے لئے اپنے حجرے میں جاتے جاتے رک گئیں اور جب آپ ﷺ کو معلوم ہوا تو اپنی چادر سنبھالتے ہوئے باہر تشریف لائے اور فرمایا:

’’ تعریف اس خدا کی جس نے میری امت میں تمہارے جیسے آدمی کو پیدا کیا ہے‘‘۔(اصابہ فی تذکرۃ الصحابۃ)

            حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو آپ  ﷺ نے فرمایا:

’’ ابو موسیٰ ! میں نے چھپ کر تمہارا قرآن سنا تیرے پڑھنے سے لحن  داؤدی کی یاد تازہ ہوگئی ‘‘۔(ترمذی)

حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ اَمَرَنِیْ اَنْ اَقْرَأَ عَلَیْکَ ’’لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا‘‘ قَالَ وَ سَمَّانِیْ ؟ قَالَ ’’نَعَمْ‘‘ فَبَکٰی۔(بخاری)

’’ مجھے اللہ نے حکم دیا ہے کہ تمہیں سورۃ البینہ (لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) سکھاؤں۔ انہوں نے عرض کی کیا اللہ تعالیٰ نے میرا نام لیا ہے؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ہاں ‘‘ تو وہ رو پڑے۔

انہی کے بارے میں آپ ﷺ کا ارشاد ہے : ’’ اَقْرَئُ کُمْ اُبَیُّ  بْنُ کَعُبٍ‘‘ تم میں سب سے بڑے قاری ابی بن کعب ہیں۔

آپ ﷺ کا ارشاد ہے:

اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَنْ یُّقْرَأَ الْقُرْاٰنُ کَمَا اُنْزِلَ۔ (بخاری)

’’ بے شک اللہ کو پسند ہے کہ قرآن مجید اسی طرح پڑھا جائے جس طرح نازل کیا گیا ہے‘‘۔

اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

     وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا۝ (الفرقان: ۳۲)

’’ ہم نے قرآن کو ترتیل سے نازل کیا ہے ‘‘۔

            ترتیل سے مراد تجوید ہے۔ امام جزری  ؒ کا ارشاد ہے کہ:

            ’’ فن قرأت اللہ تعالیٰ نے قرآن کے ساتھ اتارا ہے چونکہ قرآن تجوید کے ساتھ اترا ہے اس لئے تلاوتِ قرآن سے پہلے قواعدِ

قراءت معلوم کرنا ضروری ہیں‘‘۔         ( مقدمہ جزریہ:  ۲۳)

 

تجوید و قرأت کی اہمیت و فضیلت

            تجوید و قراء ت کی اہمیت اور فضیلت مسلّم ہے اس مبارک فن کی تحصیل اور اس میں مہارت حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے قواعد و ضوابط معلوم ہوں اور کسی مشاق و پختہ قاری سے ان کی عملی مشق کر کے قرآن مجید کو ترتیل کے ساتھ صحیح پڑھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:۔

وَ رَتَّلْنٰهُ تَرْتِیْلًا ۝ (الفرقان: ۳۲)

’’ہم نے قرآن کو ترتیل سے نازل کیا ہے۔‘‘

وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا۝ (المزمل: ۴)

’’اور قرآن کو آہستہ آہستہ ترتیل سے پڑھو۔‘‘

ترتیل کیا ہے؟ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :۔

 اَلتَّرْتِیْلُ ھُوَ تَجْوِیْدُ الْحُرُوْفِ وَ مَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ

’’ترتیل حروف کو عمدگی کے ساتھ ادا کرنے اور وقف کی معرفت کا نام ہے۔‘‘

            تجوید کے لفظی معنی ’’ اَلْاِتْیَانُ بِالْجَیِّدِ‘‘ کسی کام کو عمدگی سے ادا کرنے کے ہیں اور اصطلاحی معنی قرآنی حروف کو مع ان کی صفات کے ان کے صحیح مخارج سے ادا کرنے کے ہیں۔

بعض علماء نے یوں لکھا ہے :’’اَلتَّجْوِیْدُ ھُوَ التَّصْحِیْحُ وَ التَّحْسِیْنُ وَالتَّزْئِیْنُ‘‘کہ تجوید صحتِ لفظی ، تحسین اور تزئین و زینت کا نام ہے۔

بخاری شریف میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضور ﷺ کا ارشاد نقل کیا ہے :

خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَہٗ

’’تم میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن مجید سیکھتے اور سکھلاتے ہیں ۔‘‘

آپ  ﷺ نے یہ بھی فرمایا :

خَیْرُکُمْ مَّنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ اَقْرَئَہٗ

’’تم میںسے بہترین لوگ وہ ہیں جو قرآن پڑھتے اور پڑھاتے رہتے ہیں ۔‘‘

آپ  ﷺ نے یہ بھی فرمایا: 

تَقْرَءُ وْا الْقُرْآنَ کَمَا عُلِّمْتُمْ

’’قرآن مجید کو اسی طرح پڑھو جیسے تمہیں سکھلایا گیا ہے۔‘‘

علامہ جزری رحمہ اللہ نے لکھا ہے:

وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَّازِمٌ                         مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ الْقُرْآنَ آثِمٌ

لِاَنَّہٗ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلَا                                                                                          وَھٰکَذَا مِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا

            تجوید کا حصول نہایت ضروری ہے جو قرآن مجید کو تجوید سے نہ پڑھے گا گنہگار ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو تجوید کے ساتھ اتارا ہے اور ہم تک اسی طرح ہی پہنچا ہے۔

0 تبصرے:

 
فوٹر کھولیں