تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
پیر، 4 نومبر، 2019

پروفیسر مولانا قاضی محمد احمد ایبٹ آبادی ؒ

نومبر 04, 2019






نام کتاب:
مصنف:
بریگیڈیئر ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن جدون (ر)
ناشر:
جامع مسجد الفرقان ملیر کینٹ کراچی
تعداد
۱۱۰۰
سال طباعت:
۱۴۳۷ھ  ؍  ۲۰۱۶ء


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، وَمَنْ تَبِعَھُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ، اَمَّا بَعْدُ!
اللہ تعالیٰ کی خاص توفیق سے اُستاذ گرامی پروفیسر مولانا قاضی محمد احمد ؒبن مولانا قاضی غلام سرور ہزاروی ؒکے وصال ۱۸؍ اگست ۱۹۷۹ء کے ۳۷ سال بعد ان کی زندگی اور علمی خدمات پر لکھنے کا خیال آیاتو توکلًا علی اللہ اس پر کام شروع کردیا اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ۱۳ مئی ۲۰۱۶ء میں اس کی تکمیل ہورہی ہے۔
حضرت الاستاذ سے ان کی زندگی میں ان کا اور ان کے والدِ گرامی حضرت مولانا قاضی غلام سرور صاحب ؒخلیفہ مجاز حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی ؒکا سوانحی تذکرہ لے لیا گیا تھا اور پھر میری تصنیف اساتذتی الکرام میں ان کا تذکرہ شائع بھی ہوگیا تھا مگر تشنگی باقی تھی اور ان پر قدرے تفصیل سے لکھنے کی ضرورت تھی۔ ان کے فرزندوں پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد اور سعید احمد صاحبان سے تعاون کی درخواست کی گئی انہوں نے مقدور بھر کوشش کرکے کچھ مواد اسناد اور چند ڈگریوں کی صورت میں بھیجوادیا اور زیادہ مواد مرورِ زمانہ کی وجہ سے ضائع ہوگیا۔ ان کا کہنا تھاکہ ’’ ہمیں کیا پتہ تھا کہ ان کے وصال کے اتنے طویل عرصہ کے بعد کوئی ان کی زندگی، کام اور اسناد ؍ ڈگریوں کے بارے میں ہم سے پوچھے گا۔ ہم بھی اپنی سروس اور دیگر دنیوی کاموں میں مصروف رہے اور یہ قیمتی اثاثہ ہمارے ہاتھوں سے نکل گیا جس کا ہمیں بیحد افسوس ہے۔ ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد ان کے کوائف والدہ ماجدہ نے ایک صندوق میں سنبھال کر رکھے تھے ان کا بھی ۲۴؍ اگست ۲۰۰۲ء میں وصال ہوگیا۔ وصال سے کچھ پہلے انہوں نے اپنی بڑی بیٹی فرح اقبال کے حوالے یہ چیزیں کردی تھیں ان کا بھی ۲۳ ؍اپریل ۲۰۱۳ء میں انتقال ہوگیا تو یہ چند کریکٹر سر  ٹیفکیٹ ،مولوی فاضل کی سند،میٹرک (۱۹۴۰ء، رول نمبر ۳۸۷۴) ،بی اے اور ایم اے عربی کی ڈگریوں کی نقول آپ کو بھیجوارہا ہوں ان کے علاوہ ہمارے ہاں اباجی کے بارے میں اور کچھ نہیں ہے۔‘‘
کتاب کے چار باب ہیں؛ پہلا باب زندگی کا خاکہ؍ خودنوشت ، دوسرے باب میں آپ کے مشہور اساتذہ کرام کے سوانحی تذکرے ہیں، تیسرے میں آپ کے چند ممتازشاگردوں کا تذکرہ ہے اور چوتھے میں چند معاصرین کا ذکر ہے۔
اُستاذِ محترم اب وہاں ہیں جہاں مخلصانہ دعائوں اور صدقات جاریہ کے علاوہ اور کوئی چیز پہنچ نہیں سکتی۔ ان صدقاتِ جاریہ میں نیک اولاد بھی شامل ہے اور شاگرد بھی۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دیں اور اس کتاب کو بھی اپنے دربار میں قبولیت سے نوازیں۔ ان کی آل اولاد اور دیگر عزیزوں اور شاگردوں کے لئے یادگار بنائیں اور اسے ان کے لئے اور ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائیں ۔آمین ۔
نا سپاسی ہوگی اگر میں اپنے اُستاذ گرامی کے بڑے فرزند ڈاکٹر رشید احمد ، سعید احمد صاحبان اور باجی خالدہ کا شکریہ ادا نہ کروں ۔ انہوں نے اپنے اور بہن بھائیوں کے بارے میں معلومات فراہم کیں خصوصاً ڈاکٹر صاحب کا کہ انہوںنے چند سر  ٹیفکیٹ اور ڈگریوں کا عکس بھیجوایا اور اس کتاب کی اشاعت میں بڑا کردار بس انہی کا ہے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر عطا فرمائیں اور ہمیں اپنے اسلاف کے نقش قدم پر پوری طرح چلنے کی اور دوسروں کو چلانے کی توفیق دیں۔ ویسے ماشاء اللہ سبھی چل بھی رہے ہیں۔ میرے لئے تو اس گھرکاذرّہ بھی آفتاب ہے۔رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃً واسعۃً۔
طالب ِ رحمت
فیوض الرحمٰن

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں