تازہ ترین
لوڈ ہو رہا ہے۔۔۔۔
پیر، 9 دسمبر، 2019

جواہر الحدیث ۔ ۱

دسمبر 09, 2019




نام کتاب:
مصنف:
بریگیڈیئر ڈاکٹر حافظ قاری فیوض الرحمن جدون (ر)
ناشر:
جامع مسجد الفرقان ملیر کینٹ کراچی


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ وَالصَّلٰوۃُ وَالسَّلَامُ عَلٰی سَیِّدِ الْاَ نْبِیَاءِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ اَجْمَعِیْنَ ، وَمَنْ تَبِعَھُمْ بِاِحْسَانٍ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ، اَمَّا بَعْدُ!

        حدیث کے لغوی معنی بات چیت اور گفتگو کے ہیں۔ اصطلاح میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول ، فعل اور تقریر کو کہتے ہیں۔ حدیث آپ کی پیغمبرانہ زندگی کا ریکارڈ ہے جو آپ کی زندہ شخصیت کے قائم مقام ہے، آپ کا یہ نہایت عظیم اور روشن ترین معجزہ ہے کہ اُمّی ہونے کے باوجود آپ کی ہدایت و تعلیم نے دنیا کا ایک عظیم ترین کتب خانہ پیدا کر دیا۔ اس کتب خانہ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے،  ایک وہ جس کا تعلق آپ کے لائے ہوئے قرآن مجید سے ہے جو دراصل اللہ کا کلام ہے جس کے الفاظ بھی آسمانی اور الہامی ہیں اور دوسرا وہ جس کا تعلق آپ ﷺکے ارشادات و ہدایات اور آپ ﷺ کی پیغمبرانہ زندگی سے ہے جسے حدیث کہتے ہیں۔
        قرآن اور حدیث دونوں کا مصدر ایک ہی دہن (منہ)مبارک ہے جس مبارک منہ سے حدیث نکلی ہے قرآن کا صدور بھی اسی سے ہوا ۔ قرآن اور حدیث کا فرق بھی آپ ﷺ ہی کا بتایا ہوا ہے ورنہ ہمارے لیے ایک مبارک منہ سے نکلی ہوئی دو باتوں میں اصولی طور پر کوئی فرق نہ ہو سکتا۔ آپ ہی کے فرمان ’’یہ اللہ کا کلام ہے‘‘ پر اعتماد کر کے ہم نے اسے ’’اللہ کا کلام‘‘ مانا ہے ۔ اس سلسلے میں کلّی اعتماد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات پر ہے۔ پس اگر قرآن کریم کے کلامِ اللہ ہونے پر آپ ﷺ کے ارشاد کی وجہ سے ایمان ہے تو حدیث و سنت پر آپ کی حدیث اور آپ کا طریقہ ہونے کی وجہ سے کیوں ایمان نہ ہو۔
        قرآن کریم نے آپ ﷺ کے ہر قول کی طرح آپ ﷺ کے ہر فعل کو بھی قانونی حیثیت دی ہے بلکہ آپ کی ہر اَدا، ہر حرکت و سکون کو اسوہ اور نمونۂ عمل قرار دیا ہے۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ (سُوْرَةُ الْاَحْزَاب:۲۱) ترجمہ: ’’بلا شبہ!  تمہارے لئے رسول اللہ ہی ایک بہترین نمونہ ہیں‘‘۔ پوری انسانیت کی دونوں جہاں کی کامیابی آپ کے نمونۂ عمل کو اپنانے میں ہے۔ آپ کے نمونۂ کا علم آپ کی احادیث سے ہوتا ہے۔ آپ کی احادیث کو سننا، یاد رکھنا اور پھر انہیں دوسروں تک پہنچانا بہت بڑی سعادت ہے۔ آپ کا ارشادِ گرامی ہے ’’اللہ تعالیٰ اپنے اس بندہ کو شاد و شاداب رکھے جو میری بات سُنے، پھر اسے یاد کرلے اور محفوظ رکھے اور دوسروں تک اسے پہنچائے۔‘‘  )ترمذی شریف(
        اسی سعادت کے حصول کے لئے یہ ’’121 حدیثیں‘‘ جامع مسجد الفرقان ملیر کینٹ کراچی سے شائع ہورہی ہیں۔ اس سے پہلے اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ کئی سکولوں اور دینی اداروں کے طلبہ و طالبات کو پڑھائی جارہی ہے۔ برادرانِ اسلام کی خدمت میں گزارش کی جاتی ہے کہ وہ آیاتِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ کو نہایت ادب سے پڑھیں ادب سے رکھیں۔ ان کا مطالعہ علمی سیر یا اضافۂ معلومات کے طور پر ہرگز نہ کریں بلکہ آپ ﷺ کے ساتھ اپنے ایمانی تعلق کو تازہ کرنے کے لئے اور عمل کی نیت سے کریں۔ نیز مطالعہ کے وقت آپ ﷺ کی محبت و عظمت کو دل میں پیدا کیا جائے اور اس طرح ادب اور توجہ سے پڑھایا سنا جائے کہ گویا حضور اقدس ﷺ کی مبارک مجلس میں ہم حاضر ہیں اور آپ ﷺ فرمارہے ہیں اور ہم سُن رہے ہیں اگر ایسا کیا گیا تو قلب و روح کو انوار و برکات اور روحانی کیفیات کا کچھ نہ کچھ حصہ ان شاء اللہ ضرور نصیب ہوگا۔
         اللہ تعالیٰ اسے مقبولیت سے نوازیں۔ پڑھنے، سننے اور حفظ کرنے والوں کے حق میں نافع بنائیں۔  اٰمین یا الہ العالمین۔
طالب رحمت
فیوض الرحمٰن

0 تبصرے:

ایک تبصرہ شائع کریں

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔


 
فوٹر کھولیں